Saturday, May 22, 2010

خطبہ صدارت


بسم اللہ الرحمن الرحیم


خطبہ صدارت


بموقع :اسلام اور مشرقی مذاہب کے درمیان عالمی مکالمہ


بمقام : انصاری آڈیٹوریم جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی ۵۲ بتاریخ: ۰۲


احمدہ اصلی علی رسولہ الکریم
میں برادر محترم ظفرالاسلام خان اور دیگر منتظمین کانفرنس کا تہہ دل سے ممنون ہو ں جنہوں نے اس تہی دست کو کانفرنس کے پہلے جلسہ میں صدارت کا اعزاز بخشا ۔
محترم حضرات : ہندوستان بیشمار مذاہب او رادیان کے ماننے والے اور اسی طرح بیشمار زبانیں بولنے والے لوگوں کا ملک ہے اسلام بھی اس ملک میں بسنے والی ایک بہت بڑی بلکہ سب سے بڑی اقلیت کا مذہب ہے ۔تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام اس ملک میں پہلی صدی کے آخرمیں خشکی کے راستہ سے سندھ تک او ر کچھ دنوں بعد کیرل او رکوکن کے ساحلی علاقوں تک پہنچ گیا ۔اس ملک میں دیگر مذاہب بھی رہے او ر لوگوں نے ان کو بھی اختیار کیا لیکن یہ ایک حقیقت او رناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام ہندوستان میں سب سے زیادہ مقبول مذہب رہا ہے۔او راس مذہب کے ماننے والے اس ملک میں سب سے بڑی اقلیت ہیں اس کی مقبولیت اس حد تک بڑھی کہ ہندوستان کی کم وبیش ہر برادری نے اسلام کو قبول کیا چنانچہ گوجر ، راجپوت ،جاٹ ،ٹھاکر ،برھمن،لالہ ، تیاگی وغیرہ بے شمار برادریوں میں بڑی تعداد میں مسلمان اور ہندو دونوں شہروں ،قصبوں او ردیہاتوں میں پائے جاتے ہیں یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مذہب کا یہ اختلاف رہن سہن میں تفریق کا باعث نہیں بنا بلکہ اختلاف مذاہب کے باوجود ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہتے تھے اور ایک دوسرے کو بھائی مانتے تھے۔ اگر یہ بات کہی جائے کہ پیارومحبت کا یہ رشتہ ہندوستانی قوم کے رگ وریشہ میں پیوست تھا او رہر سطح پر پایا جاتا تھا تو اس میں مبالغہ نہیں ہوگا ، کیونکہ ہمیں ہندومسلم راجا و ¿ں اوربادشاہوں کی حکومتوں میں بھی انتہائی حساس عہدوں پر بلاتفریق مذہب ہندومسلم دونوں ملتے ہیں ۔ہندوستان کبھی بھی سیاسی او رملکی معاملات میں ہندومسلم تفریق وامتیاز کا قائل نہیں ہوا۔اس کی حکومتیں خواہ مسلم حاکم کے زیر اثر رہی ہوں یا ہندوفرمانرواو ¿ں کے وہ کبھی افتراق وامتیاز سے آشنا نہیں ہوئیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ جیسے کٹر مذہبی راجہ کی وزارت میں ہندواور سکھوں کی طرح مسلمان شریک تھے ۔پیر زادہ عزیز الدین وزیر تھے او رالہی بخش توپخانہ کے سردارتھے ،مرہٹوں کے توپخانہ کا اعلیٰ افسر ابراہیم کردی تھا۔اکبر بادشاہ کی قوم پرستی کسی تحریر اور تفصیل کی محتاج نہیں ۔جہانگیر بادشاہ کا عدل ومساوات بھی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اس کے تو پخانہ کے افسراعلیٰ راجہ بکرماجیت تھے جن کے ماتحت پچاس ہزار توپچی او ر تین ہزار توپیں رہتی تھیں۔اور نگزیب عالمگیر کو کٹر مذہبی کہاجاتا ہے مگر جب اس سے کہا گیا کہ حکومت کا منصب کسی غیر مسلم کو سپردنہ کیا جائے تو اس نے نہایت تعجب اور حیرت سے اس اعتراض کو سنا او ربڑی بے نیازی سے جواب دیا ۔دنیا کے انتظامی امور میں منصب کا مدار قابلیت ہوتی ہے مذہب کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ اس کے بڑے بڑے منصب داروں میں ساہو پسر راجہ سبتا ،جے سنگھ ،جسونت سنگھ ،سیواجی کے دامادراجندرجی اور ان کے علاوہ بڑے بڑے راجپوت او رہندوتھے جن کی تعداد بقول منشی کیول رام بٹالوی سوسے زیادہ تھی۔اور حضرت سید احمد صاحب شہید ؒ نے اپنے توپخانہ کا افسر راجہ رام راجپوت کو بنایا ۔لارڈ ولیم بیٹگ نے ۲۸۸۱ئ کی تقریر میں، ڈبلیو ایم ٹارنس نے اپنی کتاب” ایشیاءمیں شہنشاہیت“ سربی رام آف بنگال نے اپنی تصنیفات میں او ر پنڈت سندرلال آف الہ آباد نے اپنی کتاب” بھارت میں انگریزی راج“ میں ایسی بہت سی مثالیں او رنظیر یں پیش کی ہیں جن سے ہندو مسلمانوں کے باہمی بہتر تعلقات او رآپس کے اعتماد پر روشنی پڑتی ہے واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کے حکمراں ہمیشہ اس اصول کے حامی رہے کہ ملاو ¿او ر حکومت کرو۔حتی کہ سلطنت مغلیہ کے بانی بابر بادشاہ نے اپنے بیٹے ہمایوں کو وصیت کی تھی ۔اے بیٹے ہندوستان مختلف مذاہب سے پرہے ۔ الحمدللہ کہ اس نے اس کی بادشاہت تمہیں عطا فرمائی تمہیں چاہئے کہ تمام تعصبات مذہبی کو لوح دل سے دھوڈالو۔او رعدل وانصاف کرنے میں ہرمذہب وملت کے طریق کا لحاظ رکھو۔جس کے بغیر تم ہندوستان کے لوگوں کے دلوں پر قبضہ نہیں کرسکتے ۔اس ملک کی رعایا مراحم خسروانہ او رالطاف شاہانہ ہی سے مرہون ہوتی ہے۔جو قوم یا ملت حکومت کی مطیع اور فرمابردار رہے اس کے مندراو رمزار بربادنہ کئے جائیں عدل و انصاف ایسا کرو کہ رعایا بادشاہ سے خوش رہے ظلم وستم کی نسبت احسان اور لطف کی تلوار سے اسلام زیادہ ترقی پاتا ہے شیعہ سنی کے جھگڑوں سے چشم پوشی کرو۔ورنہ اسلام کمزور ہوجائے گا جس طرح انسان کے جسم میں چار عناصر مل جل کر اتحاد واتفاق سے کام کررہے ہیں اسی طرح مختلف مذاہب رعایا کو ملا جلا رکھو او ران میں اتحاداور میل ملاپ پیداکرو تاکہ جسم سلطنت مختلف امراض سے محفوظ ومامون رہے ۔سر گزشہ تیمور کو جوکہ اتفاق واتحاد کا مالک تھا اپنی نظر کے سامنے رکھو تاکہ نظم ونسق کے معاملات میں پورا تجربہ ہو ۔ اسی اشتراک واختلاط کا نتیجہ تھا کہ ہندواورمسلمانوں کی آبادیاں مشترک ہیں ۔بازار مشترک ہیں عام کاروبار ی زندگی مشترک ہے حتی کہ اس اشتراک نے ایک مشترک زبان کے ایجاد پر مجبور کیا اور اس تقرب سے اردویا ”ہندوستانی“زبان عالم وجود میں آئی ۔اس مشترک زبان کے ایجاد میں جو خوشگوار تعلقات کے ترجمان کی حیثیت رکھتی ہے ہندوستان کے جلیل القدر شیخ یعنی سلطان المشائخ حضرت نظام الدین دہلوی (قدس اللہ سرہ العزیز ) نے خاص حصہ لیا ،چنانچہ آپ نے اپنے خاص احباب کی ایک جماعت بنائی اور اس کو ہدایت کی کہ ایسی زبان تیار کریں کہ ہندوستان کے رہنے والے اور باہر کے آئے ہوے اس کے ذریعہ لین دین اور دوسری ضرورتوں کی بات چیت کرسکیں۔اس کمیٹی کے ارکان نو تھے ان میںچار ہندو، ہردیو، سنیل دیوچیتل دیو، سنبھل دیو،او رپانچ مسلمان ، امیر خسرو،خواجہ سید محمد ،خواجہ حسن سنجری، خواجہ سید موسی او رخواجہ سید رفیع الدین ہارون تھے ۔امیر خسرو کی مشہور کتاب ”خالق باری“ اسی حسن تعلق کی یادگار ہے جو بچوں کو پڑھائی جاتی تھی برطانیہ کا دور حکومت سب سے پہلا دور تھا جس میں ”لڑاو ¿او ر حکومت کرو“ کی نامبارک اور ناپاک پالیسی اختیار کی گئی ۔اس تخم خبیث کو بارآور کرنے کے لیے بہت سے مٹے ہوئے نشانات ابھارے گئے اور نئے نئے اختلافی مسائل پیدا کرکے اس تخم خبیث کی آبیاری کی گئی ۔سب سے زیادہ اسلام کی شکل وصورت کو بگاڑ کر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا حالانکہ اسلام آسمانی دیگر مذاہب کی طرح ظالم کا ہاتھ توڑنے او رمظلوم کی دست گیری میں آگے آگے ہے۔ میں ایک واقعہ کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوئے رخصت ہوا چاہتا ہوں ۔سنہ ۶ ھجری میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا ارادہ کیا لیکن قریش نے مقام حدیبہ میں روک دیا وہیں آپس میں صلح ہوئی جس میں ایک بند یہ بھی تھا کہ جوقبیلہ چاہے ہمارے ساتھ آجائے او رجو چاہے تمہارے ساتھ جائے جس طرح مسلمان اور قریش آپس میں جنگ نہیں کریں گے اسی طرح ہمارے اور تمہارے ساتھ رہنے والے بھی آپس میں جنگ نہیں کریںگے اور اگر کریں گے تو ہم تم کسی کی مدد نہیں کریں گے چنانچہ بنوخزاعہ مسلمانوں کے ساتھ او ر بنوبکر قریش کے ساتھ ہوگئے حالانکہ دونوں غیر مسلم تھے اور بنوبکر طاقت ور تھے اور بنو خزاعہ کمزور تھے لیکن یہ سمجھتے تھے کہ ظالم کی تلوار سے اگر کسی کے دامن میں امن مل سکتی ہیں تو محمد کا ہی دامن ہے اس معاہدہ کے بعد بنوبکر نے معاہدہ کا پاس نہیں کیا بنوخزاعہ پر حملہ کردیا اور قریش نے ان کی چھپ کر مدد کی اور یہی واقعہ فتح مکہ کا سبب بنا ہے ۔یہ واقعہ بتا تا ہے کہ اسلام نے بنیادی طور پر ظلم کے خلاف آواز ہی نہیں اٹھائی بلکہ مسلما نوں کو اس کا پابند بنایا ہے۔ کہ مظلوم کی مدد کرے اور ظالم کو ظلم سے روکے ۔بغیر اس کے کوئی سچا مسلمان نہیں بن سکتا ۔
محترم حضرات: آج ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں ایک طرف انگریز کا بویا ہوا ہندومسلم تفریق کاوہ تخم ناپاک ہے جس نے تا حد امکان دلوں کو توڑا ہے ،لاکھوں بے قصوروں کا خون بہایا ہے اور اربوں کھربوں کی دولت کو راکھ کاڈھیر بنایا ہے ،پیارومحبت کی جگہ نفرت وعداوت کو ہر سطح پر اجاگر کیا ہے ، اور دوسری طرف پیارومحبت بھری ہماری وہ تاریخ اور روایت ہے جس کے کچھ حقائق کو ابھی میں نے اپ کے سامنے پیش کیا ہے ۔
حاضرین جلسہ: جس طرح آگ کو آگ سے نہیںبجھایا جا سکتا ہے ،اسی طرح خوب سمجھ لیجئے کہ فرقہ پرستی او رنفرت کو فرقہ پرستی او ر نفرت سے نہیں مٹایا جاسکتا ہے،اگر اس ملک کو امن وامان اور صلح وآشتی کا گہوارہ بنانا ہے تو اپنی پرانی روایت کو پھر زندہ کرنا ہوگا او رپیارومحبت کے دئے جلانے ہوںگے یہ ایک جہد مسلسل ہے۔ کٹھن ہے پر ممکن ہے ناممکن ہر گز نہیں آج کی یہ کانفرنس اسی مقصد کے لیے بلائی گئی ہے اور اس کے ارکان اسی جذبہ ء صلح ومحبت کو اپنے دل میں لئے یہاں آئے ہیں تاکہ مسلک ومذہب کی سطح سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے رشتوں کو مضبوط کریں اور اپنی صدیوں پرانی روایت کوزندہ کریں ۔ میری یہ دعا ہے کہ اللہ اس کو کامیابی سے سرفراز فرمائے او ربالخصوص ہمارے ملک کو ہمیشہ کی طرح پیارومحبت کاگہوارہ بنائے آمین ثم آمین

ارشد مدنی صدر جمعیة علماءہند




Tuesday, May 18, 2010

انہدامی کارروائی روکنے کیلئے مولانا ارشد مدنی کادہلی کے لیفٹیننٹ گورنر سے رابطہ


نئی دہلی: جیت پورعلاقہ میں لوگوں کی گاڑھی کمائی سے بنائے گئے آشیانہ حکومت کے بلڈوزرکے نشانہ پر ہیں۔ آج بھی اس علاقہ میں کئی مکانوںکو زمین دوز کردیا گیا۔اس کارروائی کے خلاف جمعیة علماءہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر تیجندر کھنہ سے شام کو بات کی۔ اس کے علاوہ انہوںنے لیفٹیننٹ گورنر کوایک میمورنڈم بھی بھجوایاجو کل صبح ان تک پہنچ جائے گا۔ ایل جی سے ہوئی بات چیت کے بارے میں بتاتے ہوئے مولاناارشد مدنی نے بتایا کہ لوگوں نے وہاں اپنی جائدادیں خریدی اور تیس چالیس سالوں سے وہاں رہ رہے ہیں ۔ اس طرح وہاں بلڈوزر چلا کر انسانی حقو ق متاثر ہورہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ جیت پور کی زمین اگر سرکاری ہے تو اسے توڑ دیا جائے لیکن جس زمانے میں وہاںزمین خریدی گئی اس وقت وہاں کھیت تھے اورلوگوںنے یہ زمین خریدی ہیں۔ مولانا ارشد مدنی نے ایک میمورنڈم ایل جی کو بھجوایا ہے جو کل صبح انہیں مل جائے گا۔ اس کے جواب میں لیفٹیننٹ گورنر نے بھروسہ دلایا ہے کہ وہ اس پورے معاملہ پر غورکریں گے۔